یوم یکجہتی کشمیر
ہمیں کشمیر جانا ہے
جہاں پر حسن اپنے بانکپن پر ناز کرتا تھا
جہاں پر گیت خوشیوں کے ہر ذی روح سناتا تھا
جہاں چشمے نکلتے ہر طرف تھے صاف پانی کے
جہاں بارش برستی تھی تو سبزہ لہلہاتا تھا
خودی کے گیت گاتا بے خودی میں ڈوب جاتا تھا
جہاں پریاں سنہرے سبز پیلے پر ہلاتی تھیں
جہاں سورج کہیں وادی کے پیچھے لوٹ جاتا تھا
جہاں جگنو چمک کر رات کو پھر دن بناتے تھے
جہاں مہتاب اپنی لو سے راتوں کو جگاتا تھا
جہاں پر بانسری کی لے سے نغمے بکھرتے تھے
جہاں فطرت کا سوہنا پن حسیں تر ہوتا جاتا تھا
جہاں پر تتلیاں پھولوں سے لے کے رنگ چلتی تھیں
جہاں پر پھول خوشبو کو فضاؤں میں لٹاتا تھا
وہاں اب پھول کی خوشبو مقید ہو گئی ہے
وہاں اب تتلیوں کے رنگ چرانے چور آیا ہے
وہاں بارود کی بو نےجگہ لے لی ہے خوشبو کی
وہاں اب کھیت کھلیانوں میں اسلحہ اگ رہا ہے
وہاں اب مرغزاروں سے لہو کی باس آتی ہے
وہاں اب صرف منور جگنوؤں کی جان جاتی ہے
وہاں اب ارزو کے لٹیروں کا بسیرا ہے وہاں اب ہر طرف خون کے پیاسوں کا ڈیرا ہے
وہاں فطرت نے ھنسنا کھو دیا ہے
وہاں اب خواب نے انکھوں میں بسنا کھو دیا ہے
وہاں اب خوف ہے طاری اور گولی کی دہشت ہے
وہاں اب رقص بسمل بھی ہے جاری اور وحشت ہے
وہاں انسانیت کو حکم ہے کہ پابجولاں ہو
زباں بندی،ذہن بندی اگر جو بات طولاں ہو
نیا ہے ستم ہر دن میں، نئے قانون جاری ہیں
نئے ہیں حکم جو جاری، بصیرت سے وہ عاری ہیں
یہاں بھی خواب بنتی آ نکھ رکھتے لوگ رہتے ہیں
طلب آزاد ہونے کی وہ اپنے دل میں رکھتے ہیں
ظلم کے تیر کھاتے آنکھ بازو وہ گنواتے ہیں
دریدہ بدن اپنے، وہ دکھاتے، تھک سے جاتے ہیں
ہمیں دنیا کے منصف کو یہ باور کرانا ہے
ہے جاری ظلم وادی میں ظلم کے ہاتھ کو روکے
قیامت چھیڑ دی جس نے وہ اس ظالم کو اب ٹوکے
خدارا ظلم کے ان موسموں کا کچھ تو چارہ ہو
کوئی تو ہو جو مرہم دے،بھلے لفظوں کا مرہم ہو
ہمیں دنیا کے منصف کو اب باور کرانا ہے
اگر کشمیر کے گم حسن کو واپس جو لانا ہے
امن کی فصل کو وادی میں پھر ہر جا لگانا ہے
محبت امن ہے اور امن کے نغمے کو گانا ہے
اسی کشمیر جانا ہے
یہ دنیا کو دکھانا ہے
ہمیں کشمیر کے کل کو پھر اپنا کل بنانا ہے
ہمیں کشمیر کے اس بانکپن کو لوٹ لانا ہے
اسے جنت بنانا ہے ہمیں کشمیر جانا ہے
ایچ فاطمہ