: ایک درویش صفت بزرگ کی یاد اور میرے ایک دوست جناب منظور احمد محمود چشتی رح* ---
**مرثیہ: ایک درویش صفت بزرگ کی یاد اور میرے ایک دوست جناب منظور احمد محمود چشتی رح*
---
*روح کے چراغ، محبت کے دریا*
*مرثیہ:
جناب منظور احمد محمود چشتیؒ کی رحلت پر دل کی آواز ، جذبات کی گہرائی اور اداسی کا نذرانہ
وہ جو تیس سال میں پانچ بار ملا، مگر ہر ملاقات ایسی تھی
جیسے وقت نے اپنی رفتار روک دی ہو، اور محبت نے سانس لی ہو۔
ان کی آنکھوں میں چشتیہ سلسلے کی روایت تھی،
ہر بات میں ذکرِ خدا، ہر خامشی میں دعا کا سکوت تھا۔
معراج! تیرے ابّا جی تو درویش تھے، مہمان نواز ایسے کہ
ہر میٹھی گفتگو کے بعد لگتا تھا یہی آخری ملاقات ہے۔
وہ بیمہ کے اعداد و شمار بھی گنتے تھے کیونکہ یہاں بھی وہ میرے ہم مشرب تھے سابقہ بیمہ ورکر، مگر دل کے حساب میں
ہر اک کو بے شمار محبت دے گئے—کوئی قرضہ نہ چھوڑا۔
سوائے محبت کے
*وہ لمحے جو رشکِ زمانہ تھے*
کہاں گئے وہ دبنگ راٹھور، وہ چشم و چراغ؟
جن کی یاداشت پر چرچے تھے، جن کے الفاظ میں جادو تھا۔
ان کے جنازے پر اشک بار مجمع دیکھ کر بھی دل مانتا نہیں،
کہ یہی وہ شخص ہے جس نے ہمیں اداس رکھا ہے—اب تک، اور شاید ہمیشہ۔
معراج! تُو آئرلینڈ سے آیا، اور انہوں نے وقت کی نبض پکڑ لی:
دو گھنٹے کی ملاقات، ایک آخری نظر، پھر وصال۔
تُو میرے کندھے سے لگ کر رویا، بار بار رویا—
کیا جانے یہ درد کب تک ساتھ رہے گا؟
> *"رخصت ہوا کوئی تو دنیا بدل جاتی ہے*
> *جیسے کسی دریا کا رخ موڑ دیا ہو کوئی"*
وہ گئے، مگر چھوڑ گئے ایک ایسا خلا
جو محبت سے بھرا ہوا ہے، مگر پر کرنے کو کوئی نہیں۔
**آخری دعا**
اللہ تعالیٰ جناب منظور احمد محمود چشتیؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور ان کی محبتوں کا سایہ ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔
*"درد مند دوست کی جانب سے خراج عقیدت ایک ایسے دوست کی نظر جس کا مجھے یقین کامل ہے کہ اس نے محض موت کا لمس چکھا لیکن ہمیشہ کی زندگئ سے سرفراز ہوا*
*لے او یار حوالے رب دے*
تحریر نواز فریدی